Search This Blog

Thursday 16 May 2013

ہواؤں کے ساز پر


                                     ہواؤں کے ساز پر






                          مجموعہ کلام

                                              انا قاسمی





پورا نام        =              مولانا ہارون قاسمی
والد             =             حاجی محمد جمیل نظامی 
پتہ              =              سبنیگر محلہ موتی مسجد کے پاس
ذریعہ معاش  =            تجارت –  ہیلپ لائن کمپوٹر،آ
                                کاش وانی تراہا چھترپور [ایم.پی ]
                                پن کوڈ ٤٧١٠٠١
                               چھترپور [مدھیہ پردیس ]
تعلیم            =            فارغ التحصیل دارالعلوم  ندوہ العلماء 
                                لکھنؤ
                               دورہ حدیث دارالعلوم دیوبند
موبایل نمبر   =           ٩٨٢٦٥٠٦١٢٥
کتابیں          =           [١]ہواؤں کے ساز پر
                               [٢] میٹھی سی چبھن 
کتاب پبلشڈ    =           این پرکاشن دلی
                                پہلا ایڈیشن ١٩٩٩
                                دوسرا ایڈیشن  ٢٠١٢
 










::1::
غزل
بازوو پر دئے پروازِ انا دی ہے مجھے
پھر خلاؤں میں نئی راہ دکھا دی ہے مجھے

اپنی ہستی سے وہ درویش تو بے گانہ رہا
میری روداد مگر اس نے سنا دی ہے مجھے

پھر ذرا غار کے دروازے سے پتھر سرکا
ایسا لگتا ہے کہ پھر ماں نے دعا دی ہے مجھے

قرض بوتا رہوں اور بیاج سے فصلیں کاٹوں
میرے اجداد نے میراث بھی کیا دی ہے مجھے

یہ تو ہونا ہی تھا اِک روز رہے الفت میں
جرم اس کا تھا مگر اس نے سزا دی ہے مجھے

جیسے سینے میں سمٹ آئی ہو دنیا ساری
شاعری تونے ہی وسعت یہ عطا کہ ہے مجھے
انا قاسمی
..........................................................................................................


::2::
غزل
کبھی ہاں کچھ میرے بھی شعر کے پیکر میں رہتے ہیں
وہی جو رنگ تتلی کے سنہرے پر میں رہتے ہیں

نکل پڑتے ہیں جب باہر تو کتنا خوف لگتا ہے
وہی کیڑے جو اکثر آدمی کے سر میں رہتے ہیں

یہی تو ایک دنیا ہے خیالوں کی یا خوابوں کی
ہیں جتنے بھی غزل والے اسی چکّر میں رہتے ہیں

جدھر دیکھو وہیں نفرت کے آسیبوں کا سایہ ہے
محبت کے فرشتے اب کہاں کس گھر میں رہیتے ہیں

وہ جس دم بھر کے اس نے آہ مجھکو تھامنا چاہا
یقیں اس دم ہوا کہ دل بھی کچھ پتھر میں رہتے ہیں

کہ گھر میں کام والی بائی ہی رہیتی ہے ز یادہ تر
کہ بچے ہوسٹل میں اور ہم دفتر میں رہتے ہیں
انا قاسمی

::3::
غزل
مانے جو کوئی بات تو اِک بات بہت ہے
صدیوں کے لئے پل کی ملاقات بہت ہے

دن بھیڑ کے پردے میں چھپا لیگا ہر اِک بات
ایسے میں نہ جاؤ کے ابھی رات بہت ہے

مہینے میں کسی روز کہیں چائے کے دو کپ
اتنا ہے اگر ساتھ تو پھر ساتھ بہت ہے

رسماً سہی تم نے چلو خیریت پوچھی
اس دور میں اب اتنی مدارات بہت ہے

دنیا کے مقدر کی لکیروں کو پڑھیں ہم
کہتے ہیں کہ مزدور کا بس ہاتھ بہت ہے

ہو دولتِ دنیا کی طلب جنکو وہ بھٹکیں
ہم خانہ خرابوں کو تِری ذات بہت ہے

پھر تم کو پُکارُنگا کبھی کوہِ انا سے
ائے جان ابھی گرمی حالات بہت ہے
اناقاسمی::4::
غزل

وہ آسماں مزاج کہاں آسماں سے تھا
اسکا وجود بھی تو اسی خاک داں سے تھا

اس کے ہریک ظلم کو کہتا تھا عدل میں
سایہ مرے بھی سر پہ اسی سائباں سے تھا

اِک ساحرہ نے موم سے پتھر کیا جسے 
وہ قصہ لطیف مِری داستاں سے تھا

گردان کرمیں آیا ہوں میزانِ فاعلات
اب کے ہمارا سامنا اس نکتہ داں سے تھا

یہ مفلسی کی آنچ میں جھلسی ہوئی غزل
رشتہ یہ کس غریب کا اردو زباں سے تھا
اناقاسمی


؛: 5 :: 
غزل

رہتا ہے مشغلہ جہاں بس واہ۔واہ کا
میں بھی ہوں اِک فقیر اسی خانقاہ کا

صد شکر حسن اور شبِ بے پناہ کا
ویسے اِرادہ کچھ بھی نہیں ہے گناہ کا

مجھ سے ملے بغیر کہاں جائیے گا آپ
اِک سنگ میل ہوں میں محبت کی راہ کا

یا رب ہر اِک کو اتنی مصیبت ضرور دے
مطلب سمجھ سکے وہ غریبوں کی آہ کا

منصف کی بات اور ہے حق کا مزاج اور
دعوہ ہو خود دلیل تو پھر کیا گواہ کا

تم کو بھی فُرصتں ملیں مجھ کو بھی تھوڑا وقت
سوچیں گے کوئی راستہ پھر سے نباہ کا


امید ہے کہ کوئی نیا گل کھلائیگا
یہ سلسلہ بڑھے جو تِری رسم و راہ کا

مجبورو ناتواں کوئی انساں نظر نہ آئے
گذریگا یاں سے قافلہ عالم پناہ کا

دنیا کہیں بھی جائے، کہیں جا کے لو لگائے
میں بس اُمیدوار ہوں تیری نگاہ کا

شاید کے اب بھی لڑکیاں اُنگلیں تراش لیں
پانی پیا ہے میں نے بھی یوسف کے چاہ کا

کالر پہ جچ رہا ہوں بہت ہی مگر انا 
ٹوٹا ہوا میں چاند ہوں اک کجکلاہ کا
اناقاسمی




::6:: 
غزل

کھینچی لبوں نے آہ کے سینے پہ آیا ہاتھ
بس پر سوار دور سے اس نے ہلایا ہاتھ

محفل میں یوں بھی بارہا اس نے ملایا ہاتھ
لہجہ تھا نا شناس مگر مسکرایا ہاتھ

پھولوں میں تیری سانس کی آہٹ سنائی دی
باد صبا نے چپکے سے آکر دبایا ہاتھ

یوں زندگی سے میرے مراسم ہیں آجکل
ہاتھوں میں جیسے تھام لے کوئی پرایا ہاتھ

میں تھا خموش جب تو زباں سب کے پاس تھی
اب سب ہیں لاجواب تو میں نے اُٹھایا ہاتھ
اناقاسمی
::7::
غزل

یہ فاصلے بھی ساتھ سمندر سے کم نہیں
اس کا خدا نہیں ہے، ہماراصنم نہیں

کلیاں تھرک رہی ہیں، ہواؤں کے ساز پر
افسوس میرے ہاتھ میں کاغذ قلم نہیں

پیکر تو دیکھ اس میں ہی کل کا ئنات ہے 
جامِ سفال گرچہ مِرا جامِ جم نہیں

تم کو اگر نہیں ہے شعورِ وفا تو کیا
ہم بھی کوئی مسافر دستِ الم نہیں

ٹوٹے تو یہ سکوت کا عالم کسی طرح
گر ہاں نہیں تو کہہ دوخدا کی قسم نہیں

اِک تو کہ لا زوال تِری ذاتِ بے مثال
اِک میں کہ جس کا کوئی وجودو عدم نہیں
اناقاسمی
::8::
غزل
بہت ویران لگتا ہے تِری چلمن کا سنّاٹا
نیا ہنگامہ مانگے ہے یہ شہرِفن کا سنّاٹا

مجھے تاریک راتوں میں صدائیں اب بھی آتی ہیں
میاں تم نے کبھی جھیلا نہیں بچپن کا سنّاٹا

کوئی پوچھے تو اس سوکھے ہوئے تلسی کے پودے سے
کہ اس پر کس طرح بیتا کھلے آنگن کا سنّاٹا

تِری محفل کی رودادیں بہت سی سن رکھی ہیں پر
تِری آنکھوں میں دیکھا ہے ادھورے پن کا سنّاٹا

سیانی مفلسی پھٹپاتھ پر بے خوف بکھری ہے
کہ دس تالوں میں رہتا ہے بچارے دھن کا سنّاٹا

خدایا ا س جہاں پر تو تِرے بندوں کا قبضہ ہے
تو ان تاروں سے پر کر دے مِرے دامن کاسنّاٹا


مری اس سے کئی دن سے لڑائی بھی نہیں پھر بھی
عجب خوشبو بکھیرے ہے یہ اپنے پن کا سنّاٹا

تمہیں یہ نیند کچھ یوں ہی نہیں آتی انا  صاحب
دلوں کو لوریاں دیتا ہے ہر دھڑکن کا سنّاٹا
اناقاسمی
:: 9 ::
غزل
خاموش یوں کھڑے ہیں شجررہگذر کے بیچ
جیسے کے منتظر ہو کوئی بام و در کے بیچ

سو حادثے ٹلے ہیں اگر سے مگر کے بیچ
تب راستہ کھلا ہے نظر سے نظر کے بیچ

بچے مرے ببول کے سائے طلے پلے
رکھتے نہیں ہیں فرق وہ خار و ثمر کے بیچ

اتنے ہی میرے عظم و یقیں کے ہیں مرہلے
جتنی کہ زندگی ہے دعا و اثر کے بیچ

شب چاندنی تھی چھت پہ کھڑی میری منتظر
گھلتا رہا بدن مرا شام و سحر کے بیچ

الفاظ زیر لب ہی سسک کر کے رہ گئے
آواز اس کی ڈوب گئی چشمِ تر کے بیچ

تجھکو انا یہ عظم فناکر نہ دے کہیں
پتوار کے بغیر کہاں اس بھنور کے بیچ
اناقاسمی
:: 10 ::
غزل
شام کے شانہِ سے جب آنچل ڈھلے
چاندنی کے رتھ پہ تم آنا چلے

رات کچّی نیند میں تم کو جگاؤں 
تو حنائی ہاتھ سے آنکھیں ملے

تو سرورِ رقص میں بل کھائے یا
چاند لہروں کے تلے انگڑائی لے

ہو چلے ناسور جب زخمِ امید
تب تری آواز کے نشتر چلے

ہم فقیروں کی کہاں منزل یہاں
مرحلے در مرحلے در مرحلے

آؤ چلکر بسترِ خاکی پہ سوئیں
نیلگوں آکاش کے سائے تلے

چڑھ رہے ہیں یاس کے سایے بہت
یوں سمٹتے جا رہے ہیں فاصلے

آپ کیسے شاعروں کے غول میں
آدمی تو آپ تھے اچھے بھلے

ٹوٹ جائے رات کا بند قبا
سینۂ خرشیدسے چادر ڈھلے

روشنی کے اس تعاقب میں انا 
جب جلے اپنے ہی بال و پر جلے
اناقاسمی
:: 11 ::
غزل
قتعات

ابر بیتاب ہوکے چیخ پڑا
برق انگڑائی لے کے جاگ اُٹھی
قطرہ قطرہ جگر سے خوں ٹپکا
رات تنہائی لے کے جاگ اُٹھی



خوب ہریایے ہیں چنے کے کھیت
بیریاں پھل رہی ہیں آ جاؤ
فرصتوں کے بھی کچھ تقاضے ہیں
چھٹیاں چل رہی ہیں آجاؤ





:: 12 ::
غزل
روٹھنا مجھ سے مگر خود کو سزا مت دینا
زلف رُخسار سے کھیلے تو ہٹا مت دینا

میرے اِک جرم کی قسطوں میں سزا مت دینا
بے وفائی کا صلہ یار وفا مت دینا

کون آئیگا دہکتے ہوئے شعلوں کے پرے
تھک کے سو جاؤں تو اے خواب جگا مت دینا

ساری دنیا کو جلا دیگاتِرا آگ کا کھیل
بھڑکے جزبات کو آنچل کی ہوا مت دینا

خون ہو جائے نہ قسمت کی لکیریں تیری
میلے ہاتھو کو کبھی رنگ حنا مت دینا

اوچھی پلکوں پہ حسیں خواب سجانے والے
میری آنکھو سے میری نیند اُڑا مت دینا

سوچ لینا کوئی تاویل مناسب لیکن
اس ہتھیلی سے مرا نام مٹا مت دینا
اناقاسمی
:: 13 ::
غزل
جب کوئی اس پہ جان دینے لگے
جا ن کی وہ امان دینے لگے

آنکھ بستر پہ اُس گھڑی جھپکی
جب پرندے اذان دینے لگے

اس کے لہجے میں دھار آنے لگی
لفظ دل پر نشان دینے لگے

ٹوٹ جائے نہ یہ بدن کا کساو
تیر کو کیوں کمان دینے لگے

آؤ باہر ذرا ٹہلکر آئیں
اب یہ بستر تھکان دینے لگے

میری غزلیں سمجھ میں آنے لگیں
اب ادھر بھی وہ دھیان دینے لگے
اناقاسمی

:: 14 ::
غزل
کس سے پوچھوں ائے فلک حالات کا سورج ہے کون
تلملاتا کیوں اُٹھا ہے بات کا سورج ہے کون

دے گیا آنکھوں کو سپنے، لے گیا آنکھوں کا نور
تو زمیں کی تہہ میں ڈوبا، رات کا سورج ہے کون

تیرے جاتے ہی یہ ذرّے آسماں پیماں ہوئے
سب یہ کہتے ہیں بتا ظلمات کا سورج ہے کون

ہے کہاں اب مشرق و مغرب کا وہ تابنداگر
ان گھٹاؤں کے تلے برسات کا سورج ہے کون

آخرش اس کا بھی سر خو سے شفق رنگ جائیگا
یہ جہانگیری ہے کس کی ذات کا سورج ہے کون

روشنی کے پر سمیٹے شام کی دہلیز پر
زندگی کے آخری لمحات کا سورج ہے کون

کچّی فصلوں کا لہو برسوں سے پی جاتا ہے کیوں
بادلوں میں چھپ کے بیٹھا گھات کا سورج ہے کون

یہ دھکتی آگ اور یہ آبلہ پائی تری
ائے انا دل میں تِرے جزبات کا سورج ہے کون
اناقاسمی

:: 15 ::.
غزل
جا چکا ہے سب تو اب کیا جائیگا
یار پانسہ پھینک دیکھا جائیگا

خود تراشیدہ لکیریں ہی نہ پڑھ
بول جوگی سال کیسا جائیگا

ہے کڑی یہ دھوپ کچھ سایہ بھی ہو
ورنہ یہ پودھا تو کملا جائیگا

تشنگی میری ہنسیگی اور سُن
اب کی رُت میں ابر پیاسا جائیگا

اور بڑھ جائیگی دھرتی کی تھکان
بوڑھے برگد کا جو سایہ جائیگا

دل وہ شے ہے شاعری کے شہر میں
جس قدر ٹوٹیگا، مہنگا جائیگا
اناقاسمی
:: 16 ::
غزل
زخم مہکیں گے تو آہوں میں اثر بھی آئیگا
رفتہ رفتہ شعر کہنے کا ہنر بھی آئیگا

منزلوں کے ذکر کو مٹنے نہ دینا واعظو
حوصلہ زندہ ہے تو عظم سفر بھی آئیگا

رو پڑیگی چشمِ دوراں اپنا چہرا دیکھ کر
جب قلم کی نوک پر خون جگر بھی آئیگا

کھا رہا ہوں ایک مدّت سے فریبِ زندگی
سوچتا ہوں کوئی لمحہ معتبر بھی آئیگا

ائے اناؔ اپنے لئے چن لے صراطِ مستقیم
ہاں مگر کچھ راستہ ذیرو زبر بھی آئیگا

جستجو میں جسکی جو ہے پاہی لیگا ایک دن
ائے خدا اِک دن نہ اِک دن تو نظر بھی آئیگا
اناقاسمی
:: 17 ::
غزل
کجکلاہی سے نہ مطلب ریشمی شالوں سے ہے
دوستانہ یار میرا صرف متوالوں سے ہے

شاعری کا شوق تو تازہ ہے لیکن دوستو
سلسلہ تو حُسن والوں سے مرا سالوں سے ہے

اُڑ کے جائیگا بھلا وہ جنگلی پنچھی کہاں
جسکی سریانوں میں خوشبو آم کی ڈالوں سے ہے

پر کٹے پنچھی چمن میں رینگتے سے دیکھ کر
جانے کیوں اِک خوف سا ہر دم تِرے بالوں سے ہے

ہم کہ تج دیں زیندگی تک اُس پری پیکر کے نام
پھر بھی اس کو بیر سا ہم چاہنے والوں سے ہے
اناقاسمی



:: 18 :: 
غزل
دوزخ سی یہ دنیا بھی سہانی ہے کہ تم ہو
یہ بارے غمِ زیست اُٹھانی ہے کہ تم ہو

لفظوں میں وہی روح مُعانی ہے کہ تم ہو
غزلوں میں وہی شعلہ بیانی ہے کہ تم ہو

کچھ یوں ہی نہیں روح میں اُتری ہے یہ خوشبو
بولو تو سہی، رات کی رانی ہے کہ تم ہو

محفل میں غزل پڑھنے کا یارا تو نہیں ہے
ہاں تم کو کوئی بات سنانی ہے کہ تم ہو

آنچل ہے ترا، یا کہ ہیں سب رنگ دھنک کے
یہ وادیء خوش رنگ ہی دھانی ہے کہ تم ہو

اب رُخ سے نقاب اپنے اُلٹ دے مرے قاتل
کیا فرق ہے اب دشمنِ جانی ہے کہ تم ہو
اناقاسمی
:: 19 ::
غزل
واقعہ ہے یا کے تیرا ذکر افسانوں میں ہے
بات کچھ تو ہے کے تو اخبار کے خانوں میں ہے

نصف شب تو غرق میری جام و پیمانوں میں ہے
اور باقی جوہے وہ تسبیح کے دانوں میں ہے

ہم متن پڑھتے رہے لیکن اب آیا یہ دماغ
لطف تو سارے کا سارا حاشیہ خانوں میں ہے

یوں نہیں، اب ان لبوں کو بھی تو زحمت دیجئے
کیوں گھمے یہ ہاتھ کیوں جمبش ترے شانوں میں ہے

کیا کہیں اس کو سرمقتل تھا جو خنجر بکف
وہ برہنہ سر ہمارے مرثیہ خوانوں میں ہے

سر بکف پھرتا ہوں تیرے شہر میں تنہا کہ سن
خوف کس کا جب کے وہ میرے نگہبانوں میں ہے
اناقاسمی
:: 2 :
غزل
مسلہت خیز یہ ریاکاری
زندگانی کی ناز برداری

قیصری تیری میرا دشتِ نجد
اپنے اپنے جہاں کی سرداری

کیسے ناداں ہو کاٹ بیٹھے ہو
ایک ہی رو میں زندگی ساری

ہو جو ایماں تو بیٹھتا ہے میاں
ایک انساں ہزار پر بھاری

کاروبارے جہاں سے گھبراکر
کر رہا ہوں جُنوں کی تیاری

ذہن و دل میں چُبھن سی رہتی ہے
شاعری ہے عجیب بیماری

مسکرا کیا گئی وہ شوخ ادا
دل یہ گویا چلا گئی آری
اناقاسمی
:: 21 ::
غزل
مری خاطر یہ نادانی کروگے
تم اپنی آنکھ کو پانی کروگے

مری ٹوپی کی قیمت پوچھتے ہو
میرے تم در کی دربانی کروگے

اُتر کر دل سے خنجر پوچھتا ہے
کہو کسکی ثناخوانی کروگے

جنوں حد سے گزرتا جا رہا ہے
تم اب صحرا میں سلطانی کروگے

عداوت میں بہت کچھ کر چکے ہو
محبت میں بھی منمانی کروگے

پھلوں سے شاخ اب جھکنے لگی ہے
کہاں تک تم نگہبانی کروگے
اناقاسمی
:: 22 ::
غزل
قطعات

چلے پون تو وہ آنچل نہ پیچ کھائے کہیں
دھرا ہے ہاتھ نہ عارض پہ بوند آئے کہیں

منانے آئے ہیں فصل بہار کی خوشیاں
اس احتیاط سے ساری نہ بھیگ جائے کہیں

***

وہ شخص انا نیدن سے آگوش میں ہوگا
اِک تم ہو کہ سؤ رات سے بس جاگ رہے ہو
کچھ ہاتھ نہ آئیگا بجوز رنگِ ندامت
تتلی کے تعاقب میں کہاں بھاگ رہے ہو
اناقاسمی



:: 23 ::
غزل
گیسو گھٹا ہیں، برق نظر میں سمائی ہے
اب کے بہار سانس کے جھونکوں میں آئی ہے

اِٹھلا کے آکے سامنے پایل بجائی ہے
ایماں پہ بن پڑی ہے قیامت وہ ڈھائی ہے

سہمے ہوئے ہیں لفظ بعنوانِ عرض شوق
پہلے پہل کسی سے مری آشنائی ہے

بچپن کی اِیک جھینپی سی تصویرِ حسن آج
احساس شاعری میں جواں ہوکے آئی ہے

رگ رگ میں جیسے لمس کی کلیاں چٹک اُٹھیں
رہ رہ کے ہر نفس میں وہ یوں مسکرائی ہے

نکلے ابھی نہیں ہیں پرو بال بھی مگر
باندھا ہے وہ خیال فضا تھرتھرائی ہے


ڈر ہے کہ ذاہدوں کا نہ ایمان ڈوب جائے
کافر کے مدّعا میں بلا کی صفائی ہے

ایسی ہی بات تھی نہ خدا سے کہی گئی
جا جا کے بس مزار پہ چادر چڑھائی ہے

کانٹوں پہ چل کے پانوں رنگے ہے کوئی اناؔ 
تم یہ سمجھ رہے ہو کہ مہندی رچائی ہے
انا قاسمی










:: 25 ::
غزل
کب نہیں خونِ جگر چھڑکا تِرے عُنوان پر
ہاتھ رکھ کر تو ہی کہ دے میر کے دیوان پر

پھر گیا ہے آج پانی میرے سب ارمان پر
دیکھ کر اسکی عنایت اجنبی مہمان پر

جسم ہی کیا روح میں سرگوشیاں تحلیل ہیں
لب رکھے ہیں جب سے اُس نے اپنے میرے کان پر

سب بیاضیں طول دیں جس نے مری ردی کے بھاو
شاعری ہے منحصر میری اُسی نادان پر

اپنی ہی آواز سے ڈر کر کبھی ایسا لگا
ٹوٹ کر جیسے گرے بجلی کسی چٹّان پر

روزِ محشر کا تصور ہو گیا بالا نے  طاق
وہ قیامت ڈھائی ہے انسان نے انسان پر


آپکی بھی بات نکلی دیر تک صحبت رہی
چل پڑا تھا تبصرہ کل رات کو شیطان پر

گولیاں چلنے کی آوازیں بتاتی ہیں اناؔ 
آ گئی ہے بات چلکر پھر کسی کی آن پر
اناقاسمی













:: 26 ::
غزل
ایک جانب سے کہاں ہوتی ہیں ساری غلطیاں
آپکی کچھ غلطیاں ہیں کچھ ہماری غلطیاں

اِک ذرا سی لغزش آدم پہ یہ کیا ہو گیا
بخشنے کو بخش دی جاتی ہیں بھاری غلطیاں

وہ لڑکبن کی خطائیں وہ خطاؤں کا سُرور
میٹھی میٹھی لغزشیں وہ پیاری پیاری غلطیاں

اب وہ طوبہ کر رہے ہیں مسجدوں میں بیٹھکر
جبکہ بوڑھی ہو چکی ہیں وہ کُنواری غلطیاں

بارہا ٹھوکر لگی گرتے رہے پڑتے رہے
پھر بھی ہم سدھرے نہیں پھر بھی ہیں جاری غلطیاں

غلطیاں بھی خوبیوں میں اب گنی جانے لگیں
اس نئی تہذیب نے ایسے سنواری غلطیاں

وقت ہے اب بھی سدھر جاؤ انا ورنہ سنو
تمکو اب مہنگی پڑینگی یہ تمھاری غلطیاں
اناقاسمی
:: 27 ::
غزل
کون باتوں میں آتا ہے پگلے
کس کو دُکھڑا سُناتا ہے پگلے

کیا بچایا ہے میں نے تیرے سوا
تو مجھے آجماتا ہے پگلے

زخم بھی کھِل کھِلا کے ہنستے ہیں
درد بھی مسکراتا ہے پگلے

اپنی کٹیا سُدھارنے کی سوچ
چاند پر گھر بناتا ہے پگلے

بک چکے ہیں وہ دست و سہرا سب
اب کہاں پر تو جاتا ہے پگلے

اُ س پری رُخ کے اُلٹے پانو بھی دیکھ
یہ کہاں دل لگاتا ہے پگلے
اناقاسمی
:: 28 ::
غزل
کیا ہے شاعری کا شوق پھر کیا یار شرمانا
سُنانا ہو غزل کوئی تو میرے گھر چلے آنا

یہ بستی منچلوں کی ہے یہاں مت وعظ فرمانا
کہاں لفڑے میں پڑتے ہو چلو گھر جاؤ مولانا

میں تھک کر سارا اپنا بوجھ آنکھوں سے بہا دیتا
مرے ماتھے کو بھی ہوتا اگر اِک پھول سا شانا

چلو اب عشق کا یہ مسئلہ بھی طے ہی ہو جائے
کہ شمع کون ہے ہم میں سے اور ہے کون پروانہ

اسی ردّو قدہ میں عمر اس منزل کو پہنچی ہے
کبھی اقرار کر لینا، کبھی انکار کر جانا

یہی دو حادثے اس زندگی میں سب سے بڑھکر ہیں
ترا آنچل سرک پڑنا، ہمارا دل دھڑک جانا

شرابِ عشق یزداں کی خماری دیکھتے کیا ہو
تمہاری وہ جو مسجد ہے ہمارا ہے وہ میخانہ
اناقاسمی
:: 29 ::
غزل

مری تباہی کا وہ ہی ارادہ رکھتے ہیں
مجھی سے جو شرف استفادہ رکھتے ہیں

اُٹھائیے کبھی زحمت غریب خانہ کی
مکان چھوٹا مگر دل کُشادہ رکھتے ہیں

دلوں میں رکھتے ہیں طوفان حسرتوں کے وہیں
جو اپنے حسن کے تیور کو سادہ رکھتے ہیں

اِدھر بھی کم نہیں رکھتے ہیں داغ سینے پر
یہ بات اور ہنر وہ زیادہ رکھتے ہیں

یہ بھاگتی ہوئی دنیا یہ سبقتوں کا دور
مگر ہیں ہم کہ سفر پا پیادہ رکھتے ہیں

وہی ہے عشق مرا میری حسرتوں کو بیاں
ورق کتاب کا پہلا جو سادہ رکھتے ہیں
اناقاسمی
:: 30 ::
غزل
آنکھوں میں پڑھ رہا ہے محبت کے باب کو
پانی میں دیکھتا ہے کوئی آفتاب کو

بس یوں سمجھئے شوقِ طلب کے عِتاب کو
شعلوں پہ رکھ دیا ہے شگفتہ گلاب کو

جوبن کو ، بانکپن کو، حیا کو، شباب کو
آنکھوں سے پی رہا ہوں چھلکتی شراب کو

شرما رہا ہے چھوکے ترا جسم کس طرح
نظریں اُٹھا کے دیکھ ذرا ماہتاب کو

اک عمر تری راہ میں برباد کر چکا
اِ ک عمر رہ گئی ہے حساب و کتاب کو

فانی ہوں میں حقیر ہو کچھ بھی نہیں ہوں میں
میں کیا کروں گالے کے عذاب و ثواب کو

جو عکس اس میں آیا اُترتا چلا گیا
آخر میں کیا کروں دلِ خانہ خراب کو

اب کے ترا صنم بھی جواں ہو چلا اناؔ 
سرکا کے جھانکتا ہے غزل کے حجاب کو
اناقاسمی

:: 31::
غزل
رموز رنگ خوشبو کی زباں کو کون سمجھے گا
گلِ صدبرگ کی طرزفغاں کو کون سمجھے گا

میری آنکھیں بھی نم ہیں باوضو ہے اس چہرا بھی
بجزرندوں کے اس پیرِ مغاں کو کون سمجھے گا

بجھیگی پیاس تو تشنہ لبوں پر برق کھیلے گی
ہے کیوں پیہم دواں آبِ رواں کو کون سمجھے گا

نہیں تو اِک شکستِ خاموشی کا حرفِ اوّل ہے
پس انکار مضطر اس کی ہاں کو کون سمجھے گا

وہ تعمیرِ جہاں کی بات اب قصہ کہانی ہے
مگر اقبال کے خوابِ گراں کو کون سمجھے گا

فلک کی بات تو اہل خرد سب جان بیٹھے ہیں
جُنو کو فکرہے کہ اس جہاں کو کو ن سمجھے گا

ہوئی بارش تو ہر دیوارو در سے میہ برسیگا
مکیں ہوں میں جہا ں اب اس مکاں کو کون سمجھے گا
اناقاسمی
:: 32 :: 
غزل
گل جو دامن میں سمیٹے ہیں شرر دیکھ لیا
لاکھ رنگوں نے چھپایا بھی مگر دیکھ لیا

میری آنکھیں کہ لئے پھرتی ہے بادل میں ہوا
سیپ کے ہونٹ ہوئے وا کہ گہر دیکھ لیا

میری پلکوں پہ ندامت کے پھر آنسو نہ تھمے
میرے قاتل نے مرا دامنِ تر دیکھ لیا

خوف سا ہے مرے پہلو کی ہر اِک شے پہ محیط
دل کا غم بھی ہے مگر چور نے گھر دیکھ لیا

اسنے غزلیں میری تاروں کی زبانی سن لیں
میں تھا حیراں کہ کہاں تابِ ہنر نے دیکھ لیا

زندگی نے مجھے بس اتنی ہے مہلت دی ہے
شام کی شام تجھے ایک نظر نے دیکھ لیا

کون رکّھیگا یہاں قید بھلا میری انا
ؔ
ابکی یہ زلفِ دُتا تیرا بھی سر دیکھ لیا
اناقاسمی
:: 33 ::

قطعات

یہ حقیقت ہے ائے دلِ ناداں
تجھکو یہ ماننا بھی مشکل ہے
چہرے اتنے بدل چکا اب تک
خُد کو پہچاننا بھی مشکل ہے


***

پھر نیا زخم نئی ایک غزل کی صورت
جیسے ممتاز کا غم تاج محل کی صورت
آج بھی کتنے مسیحا لئے پھرتے ہیں صلیب
دیکھ مزدور کے کاندھے پہ یہ ہل کی صورت





:: 34 ::
غزل
اس شخص کی عجیب تھیں جادو بیانیاں
ایمان میرا لے گئیں جھوٹھی کہانیاں

میں اس کو پاکے، اب بھی ہوں اس کی تلاش میں
سوچا تھا، ختم ہو گئیں سب جاں فشانیاں

یہ بات بھی بجا کے کہا تم نے کچھ نہ تھا
پھر بھی تھیں تیری ذات سے کچھ خُوش گمانیاں

راتوں کو چاندنی سے بدن جل اُٹھا کبھی
دن کو مہک اُٹھی ہیں کبھی رات رانیاں

تھا پارسا تو میں بھی مگر اسنے جب کہا
آتی کہاں ہیں لوٹ کہ پھر یہ جوانیاں
اناقاسمی


:: 35 ::
غزل
یہ جملہ بہت پہنچے فقیروں نے کہا ہے
آہوں سے غریبوں کی فلک جھول رہا ہے

اِک میں ہوں کہ جنّت کی فضاء بھول چکا ہوں
اِ ک تو ہے کہ مدّت سے مجھے ڈھونڈھ رہا ہے

میں اپنے تغافل پہ پشیماں ہوں کہ ہوں انساں
وہ اپنے اِشارے پہ اٹل ہے کہ خدا ہے

اب میری لڑائی یہ مرے بچے لڑیں گے
شاخیں تو سبھی سوکھ چُکیں زخم ہرا ہے

دل اور ،دماغ اور، نظر اور، زباں اور
اس دور کا انساں کئی حصّوں میں بٹا ہے

دنیا ترے ایماں کے تعاقب میں لگی ہے
یہ سوچ کہ دل تھام کے یہ غار ہرا ہے
اناقاسمی
:: 36 ::
غزل
شہر دل ہے کے قریہ
 جاں ہو
درد تیرا کہیں تو مہماں ہو

ہم فقیروں کو سب برابر ہے
قصرِ شاہی ہو یا بیاباں ہو

چند زخموں کا قرض کی
ا رکّھوں
وار اب کے حیات پیماں ہو

اشک میرے گہر بھی ہو جائیں
کاش آنکھوں کو تیرا داماں ہو

بیوفائی اسے ہے راس آئی
پھر وفا کرکے کیوں پشیماں ہو

ہے پریزاد کی نظر تجھ پر
اب خدا ہی ترانگہواں ہو
اناقاسمی
:: 37 ::
غزل

یہ بھیانک سیاہ رات نکال
دولتِ حسن کی ذکات نکال

اس نے ہاں کر دی ہے تو ائے دنیا
قوم کی بات کر، نہ ذات نکال

حضرتِ خضر، راستہ نہ بتا
اس اندھیرے میں اپنا ہاتھ نکال

ہاتھ لگ جائے اِک فسانہ اور
ہر کہانی میں ایسی بات نکال

ذکر فرہادو قیس رہنے دے
شاخِ آہو پہ مت بارات نکال

خوُد عبارت وجود کھو بیٹھے
اتنے زیادہ نہ اب نکات نکال
اناقاسمی
:: 38 ::
غزل
اس کی رحمت کا سحاب اترے
میرے کاندھوں سے پھر حساب اُترے

خوُد سے پوچھو تباہیوں کا سبب
آسمانوں سے کیوں جواب اُترے

چشمِ اقرار کی چمک مت پوچھ
جھیل میں جیسے ماہتاب اُترے

تیری پازیب کی جھنک گونجی
تاکِ نسیاں سے پھر رُباب اُترے

عشق شعلہ بجاں ہو سینا پر
ملکۂ حسن پر کتاب اُترے

روشنی شہرِ جاں میں پھیلے کچھ
مطلع دل پہ آفتاب اُترے
انا قاسمی
:: 39 ::
غزل

تخیّلات کی تیرہ شبی بھی لیتا جا
جفاء دوست غمِ دوستی بھی لیتا جا

گرا لیا ہے جو چلمن تو اے نشینِ سخن
تصورات کی آوارگی بھی لیتا جا

شکستِ ساگرو مینا وجام سے پہلے
جو ہو سکے تو مری سرخوشی بھی لیتا جا

نئے شباب نئی دلبری کے صحرا میں
کشاں کشاں مری تشنہ لبی بھی لیتا جا

تری نواں نے بساطِ سخن دیا ہے جنہیں
انہیں سے طعنۂ کم مائگی بھی لیتا جا

مرا جُنوں ہے تری وسعتِ نظر کا حریف
جو بن پڑے تو یہ دیدہ وری بھی لیتا جا

تمام رات ستاروں سے کھیلنے والے
سحر کی آنکھ سے تھوڑی نمی بھی لیتا جا

انا
ؔ بہت ہوئی جاتی ہے اور رہنے دے
لے اپنی غزلوں کی یہ ڈائری بھی لیتا جا
اناقاسمی
:: 40 ::
غزل
ہے کوئی جو اس غرورِ حسن کا سودا کرے
تختِ شاہی کے مقابل کام اِک تیشہ کرے

میرے کاسہ میں ہے دیکھو یار سار
ی کائنات
جامِ جمشیدی میں کوئی کل جہاں دیکھا کرے

موسموں کے ساتھ تو بادل جھکیں گے اور بھی
تو مگر اس دوپہر کے حبس کو توڑا کرے

پڑھنا کیامشکل ہے ائے دل، ان گلوں کی داستاں
تتلیوں کے پر پہ لکھی بات گر سمجھا کرے

اور تو سب ٹھیک ہے، لیکن ذرا اسکو کہو
خط اگر بیجا کرے تو نام نا لکھا کرے

کیا اکیلا ،کیسا راوی ،کون سنجے، چھوڑ یار
سارے شاعر ہو گئے دلکش، انا
ؔ اب کیا کرے
اناقاسمی
:: 41 ::
غزل
اشک اتنے ہم نے پالے آنکھ میں
پڑ گئے ہیں یار چھالے آنکھ میں

جاگتی آنکھوں کو بھی فرصت نہیں
تمنے اتنے خواب ڈالے آنکھ میں

اس گلی کے بعد تاریکی
ہے دیکھ
کچھ بچا رکھنا اُجالے آنکھ میں

پتھروں پر نیند بھی آ جائیگی
بستروں پرگل بچھا لے آنکھ میں

کچھ بکھرتا ٹوٹتا جاتا ہوں اب
کوئی تو مجھکو چھپا لے آنکھ میں

بوڑھی آنکھوں میں کوئی رہتا نہیں
مکڑیاں بنتی ہیں جالے آنکھ میں
اناقاسمی
:: 42 ::
غزل
یہ اپنا ملن جیسے اِک شام کا منظر ہے
میں ڈوبتا سورج ہوں تو بہتا سمندر ہے

جو دور سے چمکے ہیں وہ ریت کے ذرّے ہیں
جو اصل میں موتی ہے وہ سیپ کے اندر ہے

دو دوست میسر ہیں اس پیار کے رستے میں
اِک میل کا پتھر ہے اِک راہ کا پتھر ہے

سب بھول گیا آخر پیراک ہنر اپنے
اب جھیل سی آنکھوں میں مرنا ہی مقدّرہے

دل اور بھی لیتا چل پہلو میں جو ممکن ہو
اس شوخ کے رستے میں اِک اور ستمگر ہے

سونے کا صنم تھا وہ سب نے اس پوجا ہے
اس نے جسے چاہا ہے وہ ریت کا پیکر ہے

اب کون اُٹھائیگا اس بوجھ کو کشتی پر
کشتی کے مسافر کی آنکھوں میں سمندر ہے

الجھے ہو انا
سے اب آسار فنا کے ہیں
جو پھونک دے آہوں سے وہ مردِ قلندر ہے
اناقاسمی

:: 43 ::
غزل
کبھی وہ شوخ میرے دل کی انجمن تک آئے
میرے خیال سے گذرے میرے سخن تک آئے

جو آفتاب تھے ایسے ہوا ترے آگے
تمام نور سمیٹا تو اِک کرن تک آئے

کہے ہیں لوگ کہ میری غزل کے پیکر سے
کبھی کبھار تری خوشبوئے بدن تک آئے

جو تو نہیں تو بتا کیا ہواہے رات گئے
مری رگوں میں ترے لمس کی چبھن تک آئے

اب اشک پونچھ لے جاکر کہو یہ نرگس کو
اگر تلاشِ نظر ہے مرے چمن تک آئے

تمام رشتے بھلاکر میں کاٹ لونگا اِنہیں
اگر یہ ہاتھ کبھی مادرِ وطن تک آئے

جو عشق روٹھ کے بیٹھے تو اس طرح ہو انا
ؔ
کہ حسن آئے منانے تو سو جتن تک آئے
اناقاسمی
:: 44 ::
غزل
قطعات

سائے بڑھے تو گھاٹ فنا کے اُتر گئے
سورج تھکا تو تھک کے پہاڑوں پہ گر گیا
میں نامراد آس کے چتھڑے سمیٹ کر
پلٹا تو زندگی کے دُھندھلکے میں گھر گیا


****


پریاں فلک پہ رقص کُناں جیسے ہو اُٹھیں
آنچل ہوا کا تھام کے بادل نکل پڑے
یوں چاند نکلا چھپتا چھپاتا کے جس طرح
معشوق کوئی کوچۂ جانا میں چل پڑے




:: 45 ::
غزل
مجھے دیکھا تو وہ کچھ اس طرح سے مسکرائے ہیں
لبِ اظہار سے حرفِ شکایت لوٹ آئے ہیں

کبھی ایسا ہواسارا جہاں اپنا لگا ہم کو
کبھی ایسا کہ اپنی ذات سے ہم خودپرائے ہیں

بنائی جا رہی ہیں پھر سے دیوانوں کی فہرستیں
تیرے کوچے سے اب کی کچھ نئے بھی نام آئے ہیں

بہاریں دیکھتیں تو چوم لیتیں میرے ہونٹھوں کو
وہ میری جس جراست پر شکن ماتھے پہ لائے ہیں

گلوں کے کان میں تتلی نے کیسا رس یہ گھولا ہے
دہک اُٹّھے ہیں عارض لب ذرا کچھ تھرتھرائے ہیں

پکار آئی فلک سے جانے اب پھر کس مسیحا کی
جہاں والے اُٹھاکر پھرصلیب ودار لائے ہیں[

وہی اپنا مدائے الم ٹھرا ہے صدیوں سے
کہ جس کے ہاتھ کے نشتر سے دل پر زخم کھائے ہیں

اجازت ہو تو دربارِ انا
ؔ تک بھی رسائی ہو
قلم محتاجِ آبرو ہے
کہ مصرعے سر جھکائے ہیں
اناقاسمی
:: 8 ::
غزل
چپ سے نہیں کھُلے ہے نہ ہی تیری ہاں کھُلے
اچھا ہو اب حضور اگر یہ زباں کھُلے

میں اس کے دل سے گرد ہٹانے کی دھون میں ہوں
آخر کبھی تو مجھ سے مرا بدنماں کھُلے

اس رند بادہ نوش کو پینے سے ہے غرض
پلکیں اُٹھیں تمہاری کہ مے کی دکاں کھُلے

دریا میں ہم بھی پھینک دیں ترکش کے سارے تیر
پر اس کے بعد پھر نہ کسی کی کماں کھُلے

خالد سا جاں فروش ہو میرِ حجاز پھر
ائے کاش پھر وہ سبزعُقابی نشاں کھُلے

میں بھی شریک بزم سخن ہوں مرے حضور
ابرو سے بل ہٹیں تو یہ آشفتہ جاں کھُلے
اناقاسمی
:: 47 :
غزل
مرحلے آئیں گے وہ بھی زندگی کے درمیاں
غم سے آنکھیں رو پڑیں گی جب خوشی کے درمیاں

تری آنکھیں نم ہیں کیوں ائے زندگ
ئ ناصُبور
کون سا رشتہ ہے باقی اب کسی کے درمیاں

یوں تو ملنے کو سبھی ملتے ہیں لیکن کیا کہیں
کیسی دیواریں کھنچی ہیں آدمی کے درمیاں

دوستی کی کچھ رمق باقی تھی، شا
ید اسلئے
شدّتیں اتنی بڑھی ہیں دشمنی کے درمیاں

زندگی کچھ اس طرح محسوس اب ہونے لگی
جیسے ہنس دے کوئی ناداں برہمی کے درمیاں
اناقاسمی
:: 48 ::
غزل

مغموم شمع راکھ پتنگے اُداس رات
جتنے طرح کے لوگ تھے اُتنی طرح کی بات

یہ درد، یہ خلش، یہ سبھی کچھ وہی تو ہے
یہ منظرِ خموش ہے شاید مری حیات

اِک پرتوِ جمال ہے تیرا یہ ہست و بود
کرتا ہے تو سنگار، سنورتی ہے کائنات

وہ قیسِ سامری ہو ،کے ہو کوہِ کن کوئی
سمجھا نہیں ہے عشق کے کیا ہیں مہرّکات

شاید ہمارے درد کا درما ہو دردِ دل
بڑھ جائے دل کا درد تو کم ہوں یہ مشکلات
اناقاسمی


:: 49 ::
غزل

سُکوتِ شب سے نہ سورج کے سر اُٹھانے سے
ہے نظمِ شام و سہر تیرے مسکرانے سے

مرے قریب ہی سرگوشیاں وہ سنتا ہے
ہے انتظار مجھے جس کا اِک زمانے سے

تمہارے بعد کئی اور لوگ آئے ہیں
مگر یہ بات الگ ہے ترے فسانے سے

میں تیری مانگ کو تارے سمیٹ لایا ہوں
چلے گا کام نہ اب کچھ بھی سر ہلانے سے

یہ انقلاب دعاؤں کی دسترس میں کہاں
اذان صبح سُنی ہے شراب خانے سے

عجب تماشہ ہستی ہے سوچئے صاحب
وجودِ خلق ہے گیہوں کے ایک دانے سے
اناقاسمی
:: 50 :
غزل
کتنا دلچسپ ہے ہر بات پہ بل کھاناترا
تھوڑا ہنسنا ترا باریک سا مسکانہ ترا

ایسے ویرانے میں تجھکو بھلا پیش کروں
رات ہے، جھیل ہے یہ چاند ہے نذرانہ ترا

ہم تو سمجھے تھے کہ اب رات گئی بات گئی
اپنا سوبھاگیہ ہے اس بظم میں پھر آنا ترا

جتنی پیتا میں گیا نشّہ اُترتا ہی گیا
کیسے تریاک میں ڈوبا ہے یہ پیمانہ ترا

میں محبت کا پجاری میں وفاؤں کا اثیر
پر میں کیا کرتا کہ تھا شہرِ حریفانہ ترا
اناقاسمی


:: 51 ::
غزل
ذرا سا جوٹھا کیا میں نے پھر پیا اس نے
سبوط اپنی محبت کا یوں دیا اس نے

بدل گئے ہیں سبھی ہم نشینِ بزمِ حیات
جو کام شہرِ منافق کا تھا کیا اس نے

چکا لیا مری ہستی سے بوند بوند کا قرض
اب اسکا اور دھرا کیا ہے کیا دیا اس نے

عجیب لطف کی محفل رہی ہے آج کی شب
ردیف میں نے کہی ہے تو قافیہ اس نے
اناقاسمی

:: 51 ::
غزل
نہ شرافتوں کا فریب دے، نہ عنایتوں کو بچا کے رکھ
نہ چھپا کے چھیڑ یوں سازِ دل، ذرا اُنگلیوں کو دکھا کے رکھ

یہ محبتیں ہیں کہ رفرتیں کبھی یوں بھی اسکا جواب دے
مرا نام اپنی کتاب میں نہ دیئے کی لو سے جلا کے رکھ

مری عمر بھر کی مصحفیں تو کیا کریگی تلاوتیں
کہیں میرا نام بھی آئے گا اُسے اپنے لب سے ہٹا کے رکھ

کبھی ملطفت کبھی بے روخی یہ محبتوں کے مزاج ہیں
جو چراغ ہے وہ چراغ ہے تو جلا کے رکھ یا بجھا کے رکھ

یہ جو مصلحت کے نقاب ہیں یہی منفعت کے لباس ہیں
جو نہ چاہ اس کو سُنائے جا، جوہوں خواہشیں وہ دبا کے رکھ

نیا کینوس، نیا عکس ہے، نئے رنگ ہیں نئے ڈھنگ ہیں
میں جو اِک پرانا خیال ہوں اُسے میز پر سے اُٹھا کے رکھ
اناقاسمی
:: 53 ::
غزل
نازک سماعتوں پہ شرربار ہو گئے
نکلی زباں سے بات کہ گل خار ہو گئے

رحمت کے تیری اور طلبگار ہو گئے
طوفاں مین جب یہ ہاتھ ہی پتوار ہو گئے

اِک مہجبیں نے زخم یہ مرحم دھرا ہی تھا
اس بختِ ناسپاس کے پھر وار ہو گئے

خوابوں کی زندگی کا مزا اور تھا مگر
اچھا ہوا کہ جلد ہی بیدار ہو گئے

انکار کی ادا کا کرشمہ بھی دیکھئے
وہ پارسا ہے، لفظ گنہگار ہو گئے

تھے جو سفر میں ساتھ خدا جانے کیا ہوا
سب دخترِ عناب کے بیمار ہو گئے
اناقاسمی
:: 54 ::
غزل
کریں گے کوہِ انا کو بھی ہم عبور چلیں
تھکن سے پانو اگرچہ ہیں چور چور چلیں

جہاں کا قرض چکا دیں کہ ہم بھی سوچتے ہیں
گرفت شام و سحر سے نکل کے دور چلیں

ہماری بزم میں صاحب سے تذکرے ہیں بہت
کہ پائے ناز اُٹھائیں ذرا حضور چلیں

تجلّیات سے آنکھیں ذرا نہیں بھرتیں
نبھاؤ ساتھ کہ ائے دوست کوہِ طور چلیں

وفا شعارو اُٹھو دار نے صدا دی ہے
قصوروار نہ جائیں تو بے قصور چلیں

سفر ہے گر چے بہت سخت تیری جنّت کا
مگر ہے ہم سفر شوق کوئی حور چلیں
اناقاسمی
:: 55 ::
قطعات

چند لفظوں کے پیچ و تاب میں ہے
ذکر میرا تری کتاب میں ہے
یاد پڑتے تو ہیں حوالے کچھ
ہاں کہ شاید وفا باب میں ہے


****

جب بھی سوچا ہے وہی ٹوٹتے رشتوں کی چٹخ
برق بن کر دلِ مضطر پہ گری ہے ایسے
جیسے دھرتی کا جگر چیر دے آکاش کی آگ
مامتا پھیک دے اِک پاپ کا پتلا جیسے
اناقاسمی


:: 56 ::
غزل
کہنی نہ پڑے بات مجھے اپنی زباں سے
ہو قصہ شروع آج سنو آپکی ہاں سے

ممکن ہے کہ ہچکی تمہیں آئی ہو وہاں پر
آواز مرے کانوں میں آئی ہے کہاں سے

ہے بات بجاقید ہوں میں سیپ میں لیکن
رشتہ تو پرانا ہے مر
ا آبِ رواں سے

میں اپنی ہی ہستی
کے تماشے میں مگن ہوں
کیا کام بھلا مجھکو ترے کارِ جہاں سے

یہ بوجھ، مری خواہشیں کمنے نہیں دیتیں
دہری ہوئی جاتی ہے کمر بار گراں سے

جب قتل ہی کرنا تھا تویہ کیسی مروّت
پوچھو تو ذرا جاکے مرے مرثیہ خواں سے
اناقاسمی
:: 57 ::
غزل

یوں تو اشعار میں کچھ اور بھی غم ہوتے ہیں
قابلِ داد مگر تیرے ستم ہوتے ہیں

بس وہی شعر بچا رکھتے ہیں کچھ اپنا وجود
وہ جو کاغذ پہ نہیں دل پہ رقم ہوتے ہیں

یوں بھی ہم جیت تے آئے ہیں وفا کی جنگیں
تختِ شاہی پہ عدو، دار پہ ہم ہوتے ہیں

جنکی ٹھوکر سے سمبھل جاتے ہیں مخمورِ حیات
در حقیقت وہیں اروابِ کرم ہوتے ہیں

تم تو سلجھانے میں اِک عمر گواں بیٹھے انا
اتنے پرپیچ کہاں زلف کے خم ہوتے ہیں
اناقاسمی
:: 58 ::
غزل
اس قدر ناراز کیوں ہو اِک ذرا سی بات پر
مرثیہ لکھنے چلے ہو اس بھری برسات پر

اِس کے آگے اب بھلا کچھ سوچنے کا ذکر کیا
ہاتھ جب رکھ ہی دیا ہے تم نے میرے ہاتھ پر

تیرے سینے پر کھنچا خنجر لگے اِک شاخِ گل
اس قدر تو کر بھروسہ اس خدا کی ذات پر

کیا خبر کل پھر مرے اخبار کی ہولی جلے
لکھ رہا ہوں تبصرہ پھر آج کے حالات پر
اناقاسمی
:: 59 ::
غزل
آخرش آپ کا کہا نکلا
وہ بھی بیگانہ ئے وفا نکلا

یو نکلنا یہ تیرا رات گئے
اُف کلیجہ بھی منھ کو آ نکلا

وقت کے سینۂ سمندر سے
غرق صدیوں کا قافلہ نکلا

آج کا دن بہت مبارک ہے
آج سورج جو بے صدا نکلا

آپکی بات جب کبھی نکلی
میرا چرچا بھی جا بجا نکلا

آس کے چشمہ مروّت سے
درد کا ایک سلسلہ نکلا
اناقاسمی
:: 60 ::
غزل
یوں ہوئی تعبیر شرمندہ خود اپنے خواب پر
کاکل شب رنگ لہرائی رخِ مہتاب پر

تبصرہ کرنے چلے ہیں گوہرِ نایاب پر
مار کر دو ہاتھ آئے ہیں جو سطحِ آب پر

بات جو کچھ سچ ہے کہ دوں اور پھر ایسا بھی ہو
بار خاطر بھی نہ گزرے وہ مرے احباب پر

سوچتا ہوں وہ پرانی ساری قدریں اُٹھ چکیں
اِک نیا مضمون لکھوں عشق کے آداب پر

ایک مٹّی کا دیا ہے خون سے جلتا ہوا
روشنی ڈالیکا محفل میں جو عالم تاب پر

لشکرِ فرعون پیچھے سامنے دریائے نیل
وہ عصاء ہی گم ہے لیکن مارتےِ جو آب پر
انا قاسمی
:: 61 ::
غزل
ایسے کچھ لوگ بھی اس راہ میں اکثر ٹھہرے
جن کو قالین کہا پانؤں کے کنکر ٹھہرے

نیچے اُڑتا تو بکھر جاتا کبھی کا تھک کر
اتنی اُونچائی پہ آیا ہوں تو یہ پر ٹھرے

میں بھی کچھ عرض کروں کوئی مداوا چاہوں
گر تری آنکھ مرے دیدہء تر پر ٹھہرے

آپ تعداد پہ نازاں ہمیں ایماں پہ غرور
سو پہ ہم ایک رہے اور برابر ٹھہرے

میرے ہاتھوں میں رہے گر تو گلِ تر کہلائے
تیرے ہاتھوں میں چلی جائے تو خنجر ٹھہرے

تم سے نقّاد وہاں پر بھی گراں قدر رہے
ہم سے نہ اہل اسی طرح سخنور ٹھہرے

اب اس عالم سے نکل آنا ہی بہتر ہے انا
ؔ
وادیئے دل میں کوئی اور نہ چکّر ٹھہرے
اناقاسمی
:: 62 ::
غزل
دل دیا ہے تو اعتبار بھی کر
میرا کچھ دیر انتظار بھی کر

سرفروشی ہمارا شیوہ ہے
اہتمام فرازدار بھی کر

قحط بخشا تو بارشیں بھی دے
دل کے سحرا کو لالہ زار بھی کر

قہقہوں کو مدارِ زیست نہ مان
اپنی پلکوں کو اشکبار بھی کر

جسدِ خاکی کو منتشر فرما
کن سے ماقبل کا غبار بھی کر
اناقاسمی
:: 63 ::
غزل
خبر ہے دونوں کو دو نو سے دل لگاؤں میں
کسے فریب دوں کس سے فریب کھاؤں میں

نہیں ہے چھت نہ سہی آسماں تو اپنا ہے
کہو تو چاند کے پہلو میں لیٹ جاؤں میں

یہی تو شے ہے کہیں بھی کسی بھی کام میں لو
اُجالا کم ہو تو بولو کہ دل جلاؤں میں

نہیں نہیں یہ تری ضد نہیں ہے چلنے کی
ابھی ابھی تو وہ سویا ہے پھر جگاؤ ں میں

بچھڑ کے اس سے دعا کر رہا ہوں ائے مولیٰ
کبھی کسی کی محبت نہ آزماؤں میں

ہر ایِک لمحہ نیاپن ہماری فطرت میں
جو تم کہو تو پرانی غزل سناؤں میں
اناقاسمی

:: 64 ::
غزل
نظریں ملا کے آپ ذرا پھر وہی کہیں
میری خوشی اسی میں ہے بس آپ خوش رہیں

وہ جو بساطِ علم سے بڑھکر زباں رکھے
کیا انسے ہم کلام ہوں کیا انکے منھ لگیں

انساں کا خوف بند حویلی میں لے گیا
بچے ہمارے شہر کے بھوتوں سے کیا ڈریں

اس آئنے کی گرد پہ صاحِب نہ جائیے
اسکو کریں جو صاف تو چہرے کو کیا کریں

آنسو بھی گرگریں تو کوئی گل کھلائے جایں
غزلوں کی اس زمین پہ یوں مرثیہ لکھیں

سمتیں نہیں تو کیسا سفر کیسی زندگی
ممکن نہیں کے وقت کے دھارے میں ہم بہیں

اخبار اِک غبار ہے پیاسی زمین کا
اوراقِ مفلسی پہ لکھی یہ خبر پڑھیں

مدّت سے اس خیال سے ٹھہرے ہوئے تھے ہم
چھٹ جائے تھوڑی بھیڑ تو آگے کو ہم بڑھیں

یہ زندگی جو ایک امانت خدا کی ہے
اسکو رسولِ پاک کی سنت میں ڈھال دیں
انا قاسمی
:: 65 ::
غزل
لہجے میں کچھ خمار سا باقی تھا رات کا
اتنا بُرا نہ مانیئے اتنی سی بات کا

دل میں ہے تیری یاد مگر اس طرح سنو
کعبہ میں جیسے کوئی دیا سومناتھ کا

آندھی کے ساتھ تم ہو چراغوں کے ساتھ ہم
دھک دھک کرے ہے آج کلیجا بھی رات کا

کچھ لغزشوں کی چھوٹ وہ دیکر چلا گیا
لینے کو آیا تھا جو سبق فایلات کا

الفاظ تیری حمد کے سایاں کہاں سے لاؤں
اِک ذرّۂ حقیر ہوں میں کائنات کا
اناقاسمی
:: 66 ::
غزل
میں بھی کہ دوں جو میری بات نہ ٹالی جائے
اب یہ برّاق دشہرے میں نکالی جائے

اس کے گھر پوچھ کہیں آج کافاقہ تو نہیں
خالی کاسہ لئے جس در سے سوالی جائے

یا مری سمت کوئی تیر نہ تلوار اُٹھے
یا تو پھر یہ کہ ترا وار نہ خالی جائے

تیری آمد ہو دروبام پہ کلیاں چٹخیں
سوچ کے رنگ ڈھلیں عکس خیالی جائے

شعر کہنے کو فقط زخمِ جگر ٹھیک نہیں
میری مانو تو حسینوں کی دعا لی جائے
اناقاسمی
:: 67 ::
غزل
یوں اس دل ناداں سے رشتوں کا بھر ٹوٹ گیا
ہو جھوٹھی قسم ٹوٹی یا جھوٹھا سنم ٹوٹا

ساگر سے اُٹھیں آہیںآکاش پہ جا پہنچیں
بادل سا یہ غم آخر با دیدۂ نم ٹوٹا

یہ ٹوٹے کھنڈہر دیکھے تو دل نے کہا مجھ سے
مسنوعی خداؤں کے ابرو کا ہے خم ٹوٹا

باقی ہی بچا کیا تھا لکھنے کے لئے اسکو
خط پھاڑ کے بھیجا ہے، الفاظ کا غم ٹوٹا

اس شوخ کے آگے تھے سب رنگ دھنک پھیکے
وہ شاخِ بدن لچکی تو میرا قلم ٹوٹا

بیچوگے انا
اپنی بیکار کی شے لیکر
کس کام میں آئیگا جمشید کا جم ٹوٹا

اناقاسمی
:: 68 ::
غزل
خود کی پہچان بھی گنواں بیٹھے
ہم تجھے ڈھونڈھ
نے کو نکلے تھے

سب کی اپنی الگ کہانی ہے
یہ کروڑوں جدا جدا چہرے

جانے کیا کھوجنے نکلتے ہیں
شام ساحل پہ سرمئی سائے

مُڑ کے دیکھا کیئے ہیں پتھر تک
ہم ترے راستے سے جب گذرے

بام پر کوئی آفتاب آئے
چاند جھانکے کسی دریچے سے

کچھ زمین نے بھی لاوا چھوڑا تھا
کچھ اِشارے تھے آسمانوں کے

دیکھ کر سب ہی چونک جاتے ہیں
اپنے گاؤں میں اجنبی چہرے

کیوں فسردہ ہو تم انا
ؔ صاحِب
آبگینے تو کب نہیں ٹوٹے
اناقاسمی
:: 69 ::
غزل
بجھ گیا جب دل تو پھر کیا چشمِ تر کا سوچنا
ان سرابوں میں تو بیجا ہے بھنور کا سوچنا

کیا کہوں تجھ سے کہ اب کس موڑ پر لائی حی
ات
سامنے منزل نہیں ہے اور سفر کا سوچنا

کچھ تذبذب کے اندھیرے کچھ تکلّف کے حجاب
مجھکو اندھا کر گیا ہے اپنے گھر کا سوچنا

مجھ نہتّے کو الم بخشہ گیا ہے دوستو
دشمنوں کا کام ہے اب میرے سر کا سوچنا

قینچیاں صیّاد پھیرے یا رسن سے کا لے
چھن گئی پرواز پھر کیا بال و پر کا سوچنا

یا خدا تو ہی کوئی اچھا سا رستہ سونپ دے
جانے کیسا موڑ لے اس بے ہنر کا سوچنا

مصلحت کچھ اور تھی کچھ اور تھا آدابِ حسن
سوچنا دل کا تو کچھ تھا کچھ نظر کا سوچنا

اپنی چھیلوں کی طرح سے ہم کھلے رکّھیں گے دل
ائے پرندو اگلے جاڑے پھر اِدھر کا سوچنا

سارے شاعر ہنس پڑیں گے تیرے اس پیوند پر
اس صدی میں تو انا
،اور بخیہ گر کا سوچنا
اناقاسمی
:: 7:
غزل
زندگی میں سراب رہنے دے
نوکِ مزگاں پہ خواب رہنے دے

کچھ تو تسکیں ملے سوالوں کو
صرف سُن لے جواب رہنے دے

بات کہنے دے کھل کے محفل میں
بس غزل کا حجاب رہنے دے
گھ
او ناسور بن نہ جائیں کہیں
رخ پہ قاتل نقاب رہنے دے

مجھ کو پڑھ لے سبھی حوالوں سے
ایک دل کی کتاب رہنے دے

چند لمحوں کا قرض لیتا جا
عمر بھر کا حساب رہنے دے

خاک کو خاک کر مرے مولیٰ
یہ عذاب و ثواب رہنے دے
اناقاسمی
:: 71 ::
غزل
یہ اپنا ملن جیسے ایک شام کا منظر ہے
میں ڈوبتا سورج ہوں تو بہتا سمندر ہے

سونے کا صنم تھا وہ، سب نے اسے پوجا ہے
اس نے جسے چاہا ہے وہ ریت کا پیکر ہے

جو دور سے چمکے ہیں وہ ریت کے ذرّے ہیں
جو اصل میں موتی ہے وہ سیپ کے اندر ہے

دل اور بھی لیتا چل پہلو میں جو ممکن ہو
اس شوخ کے رستے میں ایک اور ستمگر ہے

دو دوست میسر ہیں اس پیار کے رستہ میں
ایک میل کا پتھر ہے، ایک راہ کا پتھر ہے

سب بھول گیا آخر پیراک ہنر اپنے
اب جھیل سی آنکھوں میں مرنا ہی مقدّر ہے

اب کون اُٹھائیگا اس بوجھ کو کشتی پر
کشتی کے مسافر کی آنکھوں میں سمندر ہے
اناقاسمی
:: 72 ::
غزل
دل کی ہر دھڑکن ہے بتّس میل میں
ہم ضلعے میں اور وہ تحصیل میں

اس کی آرائش کی قیمت کیسے دوں
دل کو تولا ناک کی اک کیل میں

کچھ رہین مے نہیں مستِ خرام
سب نشہ ہے سینڈل کی ہیل میں

یک بیک لہروں میں دم س آ گئی
لڑکیایوں نے پانو ڈالے جھیل میں

عمر اداکاری میں ساری کٹ گئی
اِک ذرا سے جھوٹ کی تاویل میں

آپ کہکر دیکھئیے گا تو حضور
سر ہے حاضر حکم کی تعمیل میں

سیکڑوں غزلیں مکمل ہو گئیں
اِک ادھورے شعر کی تکمیل میں
اناقاسمی

No comments:

Post a Comment